Urdu Column By: Ayaz Ameer |
جوانی کے کچھ ایام تک شخصیت میں اصلاح کی اُمید رہتی ہے لیکن پکی عمر کو پہنچنے تک شخصیت کی جو بھی چبل مارنے کی صلاحیت ہو وہ پکے سانچے میں ڈھل چکی ہوتی ہے۔ ہم تو پکی عمر سے آگے نکل چکے ہیں۔ جو ہیں وہی رہیں گے۔ اس لئے اب کوشش ہوتی ہے کہ فضول باتوں سے دور ہی رہا جائے۔
فضول باتوں میں سر فہرست اصلاح کی امید ہے۔ اصلاح چاہے اپنی ہو یا معاشرے کی۔ معاشرے میں اصلاح کی خواہش رکھے عمر گزر گئی۔ اپنی اصلاح تو کبھی ہوئی نہیں لیکن بہت عرصے تک معاشرے کی اصلاح کی تڑپ دل میں رہی۔ یوں ہو جائے گا، ووں ہو جائے گا۔ بس ایک انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے اور جب وہ تشکیل پا جائے گی تو ہم بھی چھوٹے درجے کے چے گویرا (Che Guevara) ہو جائیں گے۔ اور کسی لانگ مارچ میں حصہ ڈال کے انقلاب کی منزل تک پہنچ جائیں گے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ فضول کے خواب ہی تھے۔ یہاں نہ کسی انقلابی پارٹی نے بننا تھا نہ کسی چے گویرا نے پیدا ہونا تھا، لیکن پھر بھی اپنے آپ کو کبھی آئینے میں دیکھتے ہوئے طرح طرح کے انقلابی روپ دھارنے میں کسر نہ چھوڑتے۔ عمر گزرنے کے ساتھ ایسی فضول باتیں پیچھے رہتی گئیں اور اب یہ یقین کامل ہو چکا ہے کہ خود کی اصلاح کبھی ہونی نہ تھی معاشرے کی اصلاح بھی ایک خوابِ پوشیدہ سے زیادہ کی حیثیت نہ رکھتی تھی۔
اب خواہشات محدود ہو چکی ہیں اور زیادہ تر اس محور کے گرد گھومتی ہیں کہ شام ڈھلے وقت اچھا گزر جائے۔ یہاں ڈھنگ کا تھیٹر شیٹر تو ہے نہیں کہ آرزو پیدا ہو کہ کوئی اچھا ڈرامہ دیکھنے کو ملے گا۔ ڈرامے ہیں تو اصلی زندگی میں اور اُن کو دیکھنے کی تمنا اُکتاہٹ میں بدل چکی ہے۔ اب یہی رہ گیا ہے کہ کمرے میں بیٹھیں اور کچھ سامانِ شب... اچھی گفتگو کی شکل میں یا کسی اور پیرائے میں ... میسر ہو جائے۔ ٹی وی دیکھنا تو زہر لگتا ہے اور کوئی لیڈر نما چہرہ تقریر کرنا شروع کرے تو بے اختیار دل چاہتا ہے کہ پاس پڑا جوتا ٹی وی سکرین کی طرف پھینکا جائے۔ اصلاح سے باز آئے، اعلیٰ حب الوطنی سے بھی اجتناب کرنے کو جی چاہتا ہے اور جہاں تک اعلیٰ اخلاقیات کا تعلق ہے پتہ نہیں کب سے وہ دفن ہو چکیں۔ کئی ایک مبلغ ہیں جو ٹی وی پہ نمودار ہو کے اصلاح کی باتیں کرتے نہیں تھکتے۔ اُن کو اب دیکھا نہیں جاتا۔ ایسے مبلغ تو ہر دور اور ہر معاشرے میں رہے ہیں، لیکن خدا کی مہربانی ہی سمجھنی چاہیے کہ ہمارے حصے میں کچھ زیادہ ہی آئے ہیں۔ معاشرہ تو شاید اُن کی کاوشوں سے کچھ زیادہ درست نہیں ہوا لیکن قوم کی مجموعی بیزاری میں ضرور اضافہ ہوا ہے۔
اپنے لیڈروں کو بھی دیکھیں۔ کبھی چین کو ماڈل بنایا ہوتا ہے کبھی ریاستِ مدینہ کی بات کرتے ہیں۔ جو فرائض یا ذمہ داریاں اُن کے ہاتھ چڑھی ہیں وہ بخوبی نبھا نہیں سکتے لیکن اُونچی باتیں مسلسل کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ایک خاص مرض ہے۔ مستقبل کی باتیں ہم تواتر سے کرتے ہیں یعنی یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے۔ لیکن موجود یا حال پہ ہماری گرفت نہیں ہوتی۔ فی الحال جو کرنے کی ضرورت ہے وہ دسترس سے باہر ہے لیکن اگلے دو سالوں میں یا اگلے پچاس سالوں میں دنیا کو حیران کرنے والا انقلاب برپا کر دیں گے۔ اپنے زمانے میں شاید ہم بھی ایسی باتیں کرتے تھے لیکن اب باز آئے۔ اب تو جیسے عرض کیا بس شام کی پڑی رہتی ہے کہ بور نہ گزرے، ضائع نہ ہو جائے۔ بستر پہ لیٹیں تو لبوں پہ مسکراہٹ ہو اور اُسی مسکراہٹ کے ساتھ نیند کی آغوش میں چلے جائیں۔ وحشت اب بوریت سے ہے۔ اسی لیے حیرانی رہتی ہے کہ کتنے وسیع پیمانے پہ اس معاشرے میں ہم نے بوریت کا اہتمام کیا ہوا ہے۔ رنگ برنگ کا معاشرہ تھا، کھیلنے کودنے والا معاشرہ۔ اپنے لوک گیتوں اور لوک موسیقی کو ہی دیکھ لیجیے۔ زندگی کی کتنی شوخی ان میں ہے۔ پنجاب کے ناچ گانوں کو دیکھا جائے، زندگی کی کیسی لہر اُن میں نظر آتی ہے۔ لیکن پتہ نہیں کون سے منحوس سائے اس دھرتی پہ پڑے کہ ہماری اجتماعی کوشش بن گئی کہ جوش اور زندگی کے تمام آثار دَب کے رہ جائیں۔ کہنے کو تو ہندوستان ہمارا دشمن ہے لیکن تاریخی، سماجی اور ثقافتی لحاظ سے پنجاب کی دھرتی ایک ہے۔ وہی رنگ نسل، وہی آب و ہوا، ایک ہی قسم کا خاص مزاج۔ لیکن بارڈر کے اِس طرف سماج کا ارتقاء اور قسم کا ہوا ہے اور بارڈر کراس کریں تو زندگی کی جھلک کسی اور رنگ میں نظر آتی ہے۔
ایسا ہونا لازم نہ تھا۔ یہاں بھی خوش مزاجی کو پنپنے کے مواقع مل سکتے تھے۔ لیکن ہم اور چکروں میں پڑ گئے۔ اُن کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں۔ کچھ باتیں کہی جا سکتی ہیں کچھ باتیں ہمارے مخصوص ماحول میں شاید ناگوار گزریں۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ تقسیم سے پہلے پورے شمالی ہندوستان کا کلچرل دارالخلافہ دہلی کی بجائے لاہور تھا۔ لاہور کی انارکلی، لاہور کا مال اور کچھ مخصوص بازار پورے ہندوستا ن میں مشہور تھے۔ دہلی میں کوئی فلم سٹوڈیو نہ تھا۔ لاہور میں فلمیں بنتی تھیں۔ صرف فلموں کی بات نہیں زندگی کی باقی تمام روایات جوں کی توں یہاں زندہ رہ سکتی تھیں۔ لیکن منحوس سایوں کا کیا کیا جائے، پڑتے ہیں تو اثر چھوڑ جاتے ہیں۔
شیکسپیئر کے امر ہیروز میں ایک کامیڈی کا ہیرو سر جان فالسٹاف (Sir John Falstaff) ہے۔ ایک ڈرامے میں وہ کہتے ہیں کہ مجھے آزادی ہونی چاہیے کہ اپنی پسند کی سرائے میں وقت گزاروں اور آرام کروں۔ ہم اور کیا چاہتے ہیں۔ پسند کی سرائے ہو جس میں سامان شب اسلوب سے سجے ہوں۔ ناچنے کودنے کا تو اب ہمارا زمانہ رہا نہیں۔ بس ماحول اچھا ہو، لائٹیں مناسب، مختلف ڈیوٹیوں پہ مامور لوگ... یعنی سروس کرنے والے... اچھی صورت کے۔ ان کے طریقے بھی مناسب ہوں۔ موسیقی کانوں کو بھلی لگتی ہو۔ اور پھر ایک خاص موڈ میں اپنے کمرے کو لوٹیں۔ کیا یہ مجرمانہ خواہشات ہیں؟ ہم تو خوش ہوں، یہ جگہیں بھی آباد ہوں۔ اب تو شام کو کہیں جائیں تو لگتا ہے کہ سناٹے سے زیادہ کہیں رونا لگا ہوا ہے۔ خوبصورت دھرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہم نے یہ کیا ظلم کیا؟ ثقافت کے میدان سے منسلک لوگوں کی کتنی بڑی تعداد لاہور سے ہے۔ اِن میں سے کتنے لوگ دھرتی کو چھوڑ کر دیگر مسکنوں کی تلاش میں باہر کے ملکوں میں جا چکے ہیں۔ ہمارے بڑے شہروں میں زندگی کی رمق واپس لوٹے تو وہ لوگ واپس آنا پسند نہ کریں؟ اپنی بیکار جوانی میں ہم نے وہ بازار دیکھے جو رات گئے تک آباد رہتے تھے۔ کیا اُن میں چہل پہل ہوتی تھی۔ ہمارا مسئلہ البتہ یہ تھا کہ بے سر و سامانی کا عالم ہوتا تھا۔ دل میں آرزوؤں کی تڑپ تو ہوتی تھی لیکن جیبیں نسبتاً خالی ہوتیں۔ جیبوں کا حال شاید کچھ بدلا لیکن ہماری بد قسمتی کہ ساتھ ساتھ زمانہ بھی بدل گیا۔ وہ جو رونقوں والے بازار تھے وہ اُجڑ گئے۔
اصلاحِ احوال کی بیکار اُمید اب دل میں نہیں۔ اب یقین محکم ہے کہ اُجڑے ہوئے دیار ایسے ہی رہیں گے۔ ہم میں وہ صلاحیت ہی نہیں کہ اُن میں بہتری لا سکیں۔ صرف صلاحیت کی بات نہیں ہمت کی بھی ہے اور وہ یہاں ڈھونڈنے کو نہیں ملتی۔ اِس ضمن میں ہمت والی چیز دور دور تک نظر نہیں آتی۔ اس سے بڑا المیہ کسی معاشرے کے ساتھ کیا ہو سکتاہے کہ نہ وسیلہ ہو نہ ہمت۔
یہ ہماری کیفیت ہے لیکن ماڈل بنانا چاہتے ہیں کبھی چین کو کبھی کسی اور ملک کو۔ چین کا پورا مطالعہ تو پہلے کر لیں۔ ترقی صرف معاشی شعبے میں نہیں ہوتی۔ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی ترقی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ لیکن یہ باتیں ہمیں کون سمجھائے؟
Post a Comment