Kis se Munsafi Chahein? by: Ansar Abbasi
مولانا فضل الرحمٰن تحریک انصاف کی حکومت کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہو سکتے ہیں، یہ تو بعد میں دیکھا جائے گا لیکن یہ طے ہے کہ عمران خان کے اقتدار کو سب سے زیادہ خطرہ اپنے آپ سے ہے۔ حالات اس قدر خراب ہو چکے کہ تبدیلی کا خواب بیچنے والے بھی اُکتا گئے ہیں اور اب مایوسی کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر عمران خان کو پاکستان کے لیے مسیحا کے طور پر پیش کرنے والے اور عوام کو یہ یقین دلانے والے کہ جب خان آئے گا تو ہماری دنیا بدل جائے گی، پاکستان ترقی کی منازل تیزی سے طے کرے گا، لوٹا ہوا پیسہ واپس آئے گا، عوام خوشحال ہوں گے؛ اب ٹاک شوز میں شرمندہ شرمندہ نظر آ رہے ہیں۔ کچھ تو معافیاں مانگ رہے اور اپنے آپ کو کوس رہے ہیں۔ جو عمران خان پر نثار ہوتے تھے، وہ اب کہتے ہیں کہ یہ تو بہت ہی نالائق نکلے۔ دوسرے تو کیا، اب تو صابر کا صبر بھی جواب دے رہا ہے اور غلام کی زبان تلخ سے تلخ ہوتی جا رہی ہے۔ جو پہلے تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے، عمران خان کا دفاع کرنا اپنی قومی ذمہ داری سمجھتے تھے، پی ٹی آئی کی پروپیگنڈہ ٹیم کا اہم حصہ تھے، اب جو بول رہے ہیں، سن کر لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ان کا یوں بولنا تبدیلی کو تبدیل کرنے کا عندیہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کے ڈوبنے کی باتیں اب یہی لوگ کر رہے ہیں۔
اب تو چارج شیٹ کے انداز میں ایک ایک کرکے گنوایا جا رہا ہے کہ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور عوام رو رہے ہیں، کاروبار ٹھپ ہو چکے اور مارکیٹیں بند پڑی ہیں، گڈ گورننس، بیڈ گورننس کو چھوڑیں، یہاں تو گورننس نام کی کوئی شے ہی نہیں رہی، وزیراعظم فیصلہ کرتے ہیں تو اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا، جو کبھی پہلے نہ سنا، نہ دیکھا۔ آپس میں وزیراعظم، وزراء اور بیورو کریسی کے درمیان کوئی ورکنگ ریلیشن شپ نہیں، کوئی ادھر جا رہا ہے تو کوئی ادھر، یہ کیسی حکومت ہے جس میں ہر کوئی اپنے اپنے رُخ پر چپو چلا رہا ہے۔ وزیراعظم آفس کے اندر کے حالات یہ ہیں کہ معاونین خصوصی ہر وقت ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف رہتے ہیں، ماسوائے وزیراعظم عمران خان کے، حکومت کے پاس ایک درجن آدمی بھی ایسے نہیں جن پر کرپشن کے الزامات نہ ہوں اور اس کے نتیجے میں نچلے لیول پر تباہی ہی تباہی ہے۔ جہاں ایک ہزار روپے کی رشوت چلتی تھی، وہاں ایک لاکھ روپیہ مانگا جا رہا ہے، جہاں ایک لاکھ رشوت چلتی تھی، وہاں لیول اب پچاس لاکھ تک پہنچ گیا ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر اب تو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے وزیراعظم کی ایمانداری کو چاٹنا ہے جب کرپشن اتنی بڑھ چکی؟
تحریک انصاف کے خواب بیچنے والوں نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ یہ تاثر عام ہے کہ عمران خان کی حکومت ناکام ہو چکی۔ یہ باتیں میں نہیں کر رہا بلکہ عمران خان کے پسندیدہ اینکرز ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر کر رہے ہیں۔ کچھ تو مکمل مایوس ہو چکے، چند ایک کے لیے امید کی کرن اس حد تک باقی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو وزیراعظم بننا پڑے گا۔ اس ماحول میں مولانا فضل الرحمٰن حکومت کے لیے کتنا بڑا تھریٹ ہو سکتے ہیں، اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
ویسے مولانا دھرنے اور لاک ڈائون کے اُسی رواج کو زندہ کرتے ہوئے عمران خان کی حکومت گرانے کے درپے ہیں جس کی بنیاد بڑے فخر سے تحریک انصاف نے خود رکھی تھی۔ دھرنوں اور لاک ڈائون کے بارے میں تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی رائے بھی تبدیل ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اگرچہ ابھی تک پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے اور لاک ڈائون کے حوالے سے شش و پنچ میں مبتلا ہے لیکن دوسروں کے لیے جو دھرنے اور لاک ڈائون ماضی میں حرام تھا، اب حلال ہو چکا۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کے لیے اب دھرنے اور لاک ڈائون کی سیاست حرام ہو چکی۔ آئندہ چند ماہ پاکستان کی سیاست کو کس رخ پر ڈالیں گے اس حوالے سے کچھ بھی ممکن ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ عمران خان کی حکومت کے لیے آئندہ چند ماہ بہت مشکل ہوں گے اور اس کی وجہ صرف مولانا نہیں بلکہ خراب معیشت اور مایوس کن گورننس ہے جس کا فوری علاج ممکن نظر نہیں آ رہا، چاہے معالج پنڈی کا ہی کیوں نہ ہو۔
Post a Comment