Na Tamaam by Haroon Ur Rasheed
شاعر نے کہا تھا، کپتان اور ان کے محتسب پہ صادق آتا ہے۔
سودائے عشق اور ہے وحشت کچھ اور شے
مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا
اول تو آہ و بکا سنائی دی، اب وضاحتوں کا سلسلہ۔ یہ کہ کاروباریوں نے چیف آف آرمی سٹاف سے حکومت کی شکایت نہیں کی، فریاد نہیں کی۔ گلہ مند ہوئے نہ شور مچایا۔ ایسا اگر نہیں تھا تو فوراً ہی تردید کیوں نہ داغ دی۔ سچائی شاید کہیں بیچ میں پڑی سسک رہی ہے۔ تجاویز پیش کیں، بعض باتوں مثلاً شناختی کارڈ کی شرط پہ روہانسے بھی ہوئے۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ احتجاج کی لے بہت بلند ہو۔
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن ِ "یزداں" چاک
کاروباری سیانے لوگ ہوتے ہیں۔ پہاڑوں سے سر نہیں ٹکرایا کرتے۔ جانتے ہیں کہ فی الجملہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک ہی صفحے پر ہیں۔ تھیوری یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو اسٹیبلشمنٹ تھپکی دے رہی ہے۔ دلیل یہ کہ احتساب پر دونوں کا اندازِ فکر مختلف ہے۔ ان لوگوں کے بقول اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ زرداری اور نواز شریف سے "کچھ لو اور کچھ دو" کی بنیاد پر معاملہ طے کر لیا جائے۔ دونوں بلکہ تینوں یعنی محتر مہ مریم نواز بھی مقرر مدت کیلئے ملک سے باہر چلے جائیں۔ ملک میں سکون اور قرار ہو۔ بے یقینی کا خاتمہ ہو جائے۔ بے چینی تحلیل ہواور معیشت کا پہیہ، قدرے زیادہ تیزی سے حرکت کرنے لگے۔ سوال یہ ہے کہ زیادہ عزم کے ساتھ بروئے کار تو مولانا فضل الرحمن ہیں۔ پیپلز پارٹی الگ کھڑی ہے اور نون لیگ منقسم۔ شہباز شریف کا انداز ِ فکر دوسرا ہے۔ ان کا احساس یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں لیگ کی نشستیں زیادہ تھیں۔ سودا ہوجائے تو آزاد ارکان لیگ کی طرف لپک سکتے ہیں۔ سب سے بڑے صوبے میں تب حکومت وہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ اگر شہباز شریف اس کے نگران ہوں تو اسٹیبلشمنٹ کو کبھی کوئی پریشانی لاحق نہ ہو گی۔ وفا شعار ہیں، خدمت گزار ہیں۔
کیوں اسٹبلشمنٹ ایسا کرے گی۔ اپنے واحد بڑے حلیف عمران خان کو خفت اور ردعمل میں کیوں مبتلا کرے گی۔ سوشل میڈیا پرپی ٹی آئی کا غلبہ ہے اور غلبہ بھی ایساکہ اندازاً ستر فیصد ٹویٹ پی ٹی آئی کے حق میں ہوتے ہیں۔ جوش و خروش سے بھرے نوجوان، جن کیلئے کپتان ایک دیوتا ہے۔ پہلی بار جو سیاست کے میدان میں اترے ہیں اور جو خان کی ہر بات پر یقین رکھتے ہیں۔ جس طرح کہ اس سر زمین پر مرید ہمیشہ پیروں پر اور قبائلی اپنے سردار پر اعتبار کرتے آئے ہیں۔ ایک یقینی حلیف کو کھو کر ایسے لوگوں پر وہ کیوں اعتبار کرے گی، کسی وقت بھی جو چکما دے سکتے ہیں۔ ثانیاً اسٹیبلشمنٹ کا زیادہ بڑا درد سر کشمیر اور افغانستان ہے۔ وسطی پنجاب میں بے چینی کا اسے ادراک ہے۔ وہ یہ چاہے گی کہ اس بے چینی میں کمی آئے مگر سوال یہ ہے کہ کس قیمت پر۔ شہباز شریف پائلٹ نہیں کو پائلٹ ہیں۔ پارٹی میں قبولیت بڑے بھائی کی ہے چھوٹے کی نہیں۔ ہمیشہ طاقتوروں کے سامنے جھکنے والے شہباز شریف بڑے بھائی سے بغاوت کیسے کریں گے۔ سودا بازی والے مفروضے کو اگر مان لیا جائے تو ایک ہی لائحہ عمل ممکن ہے۔ نواز شریف اور ان کی صاحب زادی نہ صرف سمندر پار چلے جائیں بلکہ ایک مقرر ہ مدت کیلئے واپس نہ آنے کا اعلان کریں۔
درو دیوار پہ حسرت کی نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں
یہ بحث پھر بھی باقی رہے گی کہ پینتیس برس کی لوٹ مار کا مداوا کیوں نہیں۔ اس بھنور کو پار کئے بغیر ہموار پانیوں تک رسائی ممکن نہیں اور عوامی احساس میں یہ بھنور بہت بڑا ہے۔ ہاتھوں سے دی ہوئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں۔ نواز شریف کی خود فریبی کا عالم یہ ہے کہ ہاتھ کیا ابھی تک وہ ہونٹوں کو حرکت دینے پر بھی آمادہ نہیں۔ جہاں تک صاحبزادی کا تعلق ہے، نخوت و نفرت ہی اس کا اثاثہ ہے۔ لشکر اس کاخوشامدیوں پر مشتمل ہے، سرخیل پرویز رشید ہیں۔ ہٹ دھرمی جن کا سرمایہ حیات ہے۔ کوئی چیز جن کی دائو پر نہیں۔ موصوف کی لیڈر شپ اگر چمکتی ہے تو شریف خاندان کی اندھی وفا داری پر۔ مزید براں ملک کے مستقبل سے دلچسپی انہیں ہرگزنہیں۔ سات برس ہوتے ہیں جب نا چیز نے لکھا تھاکہ تحریک پاکستان اور قائد اعظم کی حمایت میں کبھی ایک لفظ آنجناب نے کہا نہیں۔
یہی کچھ حضرت مولانا فضل الرحمن ہیں۔ جمعیت علماء اسلام نہیں جمعیت علماء ِہند کے وارث ہیں۔ بلوچستان میں ان کے نفس ناطقہ مولانا محمد خان شیرانی آج بھی یہ کہتے ہیں کہ وہ جمعیت علماء ِہند کے ممبر ہیں۔ ٹھیک کہتے ہیں، جمعیت علماء اسلام تو مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد انصاری اور مفتی اعظم محمد شفیع کی تھی، جن کے وارث جسٹس تقی عثمانی ہیں۔ بھارت میں ان کے ہم نفس پچاس پچپن دنوں سے دھاڑ رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کا ہے اور اسی کا رہنا چاہئے۔
مولانا فضل الرحمن کو بہت دانا سمجھا جا تا ہے۔ معرکے کا سیاست دان۔ اللہ جانے یہ کیسی دانائی ہے، دھن دولت اور رسوائی کے سوا جس نے کبھی کچھ نہیں سمیٹا۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں، وقت کے ساتھ جوبدل نہیں سکتے۔ ماضی میں جو زندہ رہتے ہیں، تنگ نظری اور عدم تحفظ کا احساس جن پرمسلط کر دیا جاتا ہے۔ وقت کے بدلتے تیوروں سے نا آشناجو سطحی زندگیاں گزارتے ہیں، لکیر کے فقیر۔
سامنے کی بات یہ بھی ہے کہ سیاسی شورش مولانا فضل الرحمن کی ذاتی ضرورت بھی ہے اور ان کے مکتبہ فکر کی بھی۔ رفتہ رفتہ، دمبدم، جو برف میں رکھی دھوپ کی طرح پگھل رہا ہے۔ جس طرح بھارت میں ان کے ہمدم تخت کے سائے میں پناہ لیتے ہیں، یہاں مولانا فضل الرحمن دربار ہی میں آسودہ رہ سکتے ہیں۔ جس طرح کا طرز زندگی انہوں نے اپنا لیا ہے اور جس کے بغیر وہ شاد کام نہیں رہ سکتے، اسلام آباد میں کسی ظل الہی کے سوا اس کی ضمانت ممکن نہیں۔
جہاں پناہ مجھے بازووں میں لے لیج
ےمری تلاش میں ہیں گردشیں زمانے کی
ان کی حالت کہانی کے اْس چوکیدار کی سی ہے، الہ دین کا چراغ جس کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ دیوسے اس نے فرمائش کی کہ ایک عظیم الشان محل تعمیر کرے۔ غیب سے وجود میں آ چکا تو دوسری فرمائش یہ تھی کہ اسے چوکیداروں کا سربراہ بنا دیا جائے۔ جمعیت علماء اسلام کے کارکن ضرور وفادار ہیں، مذہبی جذبے سے سرشار ہیں مگر مولانا کیلئے سیاست ایک مادی چیز ہے۔ دو جمع دو برابر چار کروڑ روپے۔
اب جہاں تک کاروباری سر گرمیوں کا تعلق ہے ماضی کے ملبے، ٹیکس نہ دینے کے عادی معاشرے اور مرکزی معاشی ٹیم کے علاوہ نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال اور وزیر اعظم کی طرف سے خوف پھیلانے کی حکمت عملی سب سے بڑا سبب ہے۔ جج صاحب تو یہاں تک کہہ گزرے کہ سعودی عرب جیسے اختیارات حاصل ہوں تو تین ہفتوں میں وہ ہڑپ کیا گیا سرمایہ لٹیروں کے حلق سے نکال سکتے ہیں تو کیا پاکستان میں بادشاہت رائج کردی جائے؟۔ اور جج صاحب کو سلطان بنا دیا جائے؟۔
غضب ہے غضب کہ طرزِ احساس میں اس کجروی نے راہ پائی۔ احتساب میں انصاف نہیں، آرزو سلطانی کی۔ اللہ اور اس کا رسول ؐ یہ کہتے ہیں کہ اجتماعی حیات میں قیام اور قرار عدل سے آتا ہے، خالص عدل سے۔ ہزاروں برس کاانسانی تجربہ بھی یہی ہے۔ مگر افسوس مگر افسوس۔ شاعر نے کہا تھا، کپتان اور ان کے محتسب پہ صادق آتا ہے۔
سودائے عشق اور ہے وحشت کچھ اور شے
مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا
Post a Comment