Bayn Al Satoor By: Sabir Shakir
Qaidi Ka Dharna - Urdu Column By: Sabir Shakir |
عالمی و علاقائی سیاست میں پاکستان کا امیج بہتر سے بہتر تر ہوتا جارہا ہے اور یہ خطے کا اہم کھلاڑی بنتا جارہا ہے۔ خاص طور پر افغانستان کی صورتحال اور افغان طالبان کے امریکہ کے ساتھ ٹوٹے ہوئے مذاکرات کا اسلام آباد میں دوبارہ بحال ہونا اور بحالی کے اس عمل میں پاکستان کا کردار تسلیم کیا جانا یقیناً اچھی خبر ہے۔ وزیراعظم عمران خان، سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ، آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید افواج پاکستان کے ترجمان آصف غفور اہم ترین وفاقی وزرا شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید احمد سمیت دیگر حکام کا دورہ چین بھی اچھی علامت ہے، جس کے نتیجے میں سی پیک کے اگلے مرحلے کے منصوبوں کا آغاز اور پاک چین تعلقات کے حوالے سے پھیلائی جانے والی منفی خبروں کا استرداد ہو گا۔ یہ دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا اور اس کے نتائج بھی انتہائی غیر معمولی برآمد ہوں گے، جس کا عشرعشیر بھی خبروں کی زینت نہیں بنے گا۔ خاص طور پر افغانستان اورکشمیر کی بدلتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کی دفاعی صلاحیتِ کار میں اضافہ کرنے میں چین کا کردار اہم ترین ہوگا۔ دونوں ملک مل کر آگے بڑھیں گے اور دیگر ممالک کے ساتھ اپنی انگیج منٹس کے بارے میں ایک دوسرے کو اعتماد میں لیتے رہیں گے تاکہ کسی قسم کی بدگمانی پیدا نہ ہو۔ بیجنگ میں پاکستان اور چین کی قیادتوں نے اس ضمن میں معلومات کی شیئرنگ بھی کی۔ ایک اور اچھی ڈیویلپمنٹ یہ ہوئی کہ پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کے لیے جو پُل باندھا تھا اس سے خیر برآمد ہونا شروع ہوگیا ہے۔ سعودی عرب میں آئل ریفائنری پر حملے کے پس منظر میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ شروع کروانے کا جو گھناؤنا سکرپٹ لکھا گیا تھا اسے روکنے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا اور دونوں برادر ملکوں میں جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی، ورنہ جو تباہی ہونا تھی اس کے بارے میں صرف سوچا ہی جا سکتا ہے؛ تاہم اس کا کریڈٹ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کو بھی جاتا ہے جنہوں نے پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے اہم نکات پر نہ صرف توجہ دی بلکہ اس کو اکنالج کرتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھانے کا اشارہ بھی دیا۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان پاکستان کی بیک ڈور سفارتکاری اور دونوں برادر مسلم ممالک کی طرف سے مثبت پیغامات آنے کے بعد اب وزیراعظم عمران خان سعودی عرب اور ایران کا انتہائی اہم دورہ کریں گے۔ اگر ایران اور سعودی عرب کی قیادت ایک میز پر بیٹھنے کیلئے تیار ہوگئی اور دونوں ممالک نئے رولز آف گیم طے کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ ایک اور گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن سپائیلرز بھی اسی برق رفتاری سے متحرک ہوچکے ہیں۔
نائن الیون کے بُرے اثرات آہستہ آہستہ کم ہوتے جارہے ہیں۔ اسلام آباد کا سفارتی سطح پر دوبارہ فیملی سٹیشن کا درجہ بحال کردیا گیا ہے۔ پاکستان کیلئے برٹش ایئرلائنز کی سروس بحال ہوچکی ہے۔ اسی تناظر میں ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ برطانوی شاہی جوڑا پاکستان کے سٹیٹ وزٹ پر آرہا ہے جو اسلام آباد، لاہور اور شمالی علاقہ جات کا دورہ کرے گا۔ دونوں صدر مملکت، وزیراعظم اور آرمی چیف سے ملاقات کے علاوہ مختلف تقریبات میں شرکت کریں گے۔ برطانیہ سے ایک اور بڑی خبر اور کسی حد تک ناقابل یقین بھی کہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو دہشتگردی پھیلانے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ فرد جرم عائد کردی گئی ہے۔ برطانیہ میں فرد جرم عائد اس وقت کی جاتی ہے جب پراسیکیوٹر کے پاس ناقابل تردید شواہد موجود ہوں۔ ذرہ برابر شبہ نہیں کہ الطاف پاکستان کا دشمن تو تھا ہی وہ انسانیت کا بھی قاتل نکلا جس نے اپنی ساری سیاسی قوت دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کیلئے استعمال کی اور روشنیوں کے شہر کراچی کو خوف و دہشت کی علامت بنا دیا، جہاں لوگوں کو زندہ جلایا گیا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ اب ان کی باقی زندگی جیل میں گزرے گی کیونکہ سکاٹ لینڈ یارڈ تو کب کی اس دہشت گرد کے خلاف ثبوت اکٹھے کر چکی تھی لیکن برطانوی اسٹیبلشمنٹ سیاسی مصلحتوں کا شکار ہونے اور بھارت کی درخواست کی وجہ سے الطاف کے خلاف کارروائی سے گریزاں تھی۔ الطاف کی گرفتاری ظاہر کرتی ہے کہ ریاست برطانیہ اب اس کردار کو کیفر کردار تک پہنچانے کا فیصلہ کر چکی ہے۔
ترکی کے صدر طیب اردوان کا دورہ پاکستان بھی یقیناً سفارتی میدان میں اچھی خبر ہے۔ لیکن ان تمام تر اچھی اور انتہائی اہم ڈیویلپمنٹس کو سیاست کے داخلی میدان میں گرہن لگانے کا عمل نہ صرف شروع ہو چکا ہے بلکہ اس میں اچانک تیزی اور قدرے شدت آتی دکھائی دے رہی ہے۔ دھرنے اور لانگ مارچ کے سنجیدہ کردار اور ماسٹرمائنڈ بھی منظر عام پر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں یہ سوال اور راز فاش کرنے کے لیے تمام نامور دانشور، صحافی، سیاستدان اور قانون دان اپنے اپنے گھوڑے دوڑا رہے ہیں کہ مولانا یہ کام کس کے اشارے پر کررہے ہیں اور یہ کہ ان جیسا زیرک سیاست دان اندھے کنویں میں بھلا کیسے چھلانگ لگا سکتا ہے؟ تاہم اس کے بارے میں کسی کے پاس کوئی ٹھوس شہادت نہیں ہے؛ البتہ اب یہ راز راز نہیں رہا کہ اس دھرنے کے ماسٹرمائنڈ میاں نواز شریف اور مریم بی بی ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ جیل میں قید ہوتے ہوئے بھی حکومت کے خلاف میدان سجانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ کیپٹن صفدر واحد پیغام رساں بن کر میدان میں ہیں اور نواز شریف اور مولانا کے درمیان رابطے کا کردار ادا کررہے ہیں۔ دھرنے اور لانگ مارچ کے لیے ہر طرح کا ایندھن جمع کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف اس دھرنے میں تاجروں کو شامل کرنے کا بندوبست کرچکے ہیں۔ اسلام آباد میں اس کی ایک ریہرسل ہو چکی ہے۔ شہباز شریف اس موقع پر سرخ لائن عبور کرنے کے حق میں نہیں۔ پارٹی کے آخری اجلاس میں شہباز شریف اور ان کے ہم خیال راہنما مولانا پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں جبکہ مولانا ببانگ دہل کہتے ہیں کہ دھرنے کا فیصلہ نواز شریف اور ان کا مشترکہ ہے۔ کیپٹن صفدر ان کے موقف کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ دھرنے کے تیسرے سنجیدہ کردار محمود خان اچکزئی بھی نمودار ہوچکے ہیں۔ مولانا، نواز شریف اور اچکزئی پچھلی حکومت کے اتحادی ہیں اور تینوں نواز شریف کے خیالات کے حامی ہیں۔ کیپٹن صفدر اور مولانا کے اس انکشاف کے بعد کہ یہ دھرنا 'ووٹ کو عزت دو، کا پارٹ ٹو ہے اور مولانا کے پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی تمام معلومات اور پلان شیئر نہ کرنے کے عمل نے پیپلز پارٹی کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اب پیپلز پارٹی بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ مولانا اور میاں کا یہ جوائنٹ وینچر پُراسرار ہے اور اس کا کوئی مخفی ایجنڈا بھی ہے جو ان سے دانستہ چھپایا جارہا ہے۔ زرداری صاحب اور فریال تالپور نواز شریف کے قائم کردہ مقدمات میں ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ وہ بھلا مریم اور میاں صاحب کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کیلئے ایندھن کیوں دیں گے؟ اسی لیے بلاول اپنے والد سے ملاقات کے بعد دھرنے میں عدم شمولیت پر بظاہر یکسو نظر آتے ہیں ؛ البتہ اگر یہ دھرنا کامیاب ہوتا نظر آیا اور پارلیمنٹ کے اندر کوئی تبدیلی کی صورت نظر آئی تو پھر وہ اپنے مطالبات کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر میدان میں اتریں گے۔ اس دھرنے کو آگے بڑھانے کیلئے وکلا ونگ بھی خاموشی سے تیاری پکڑ رہا ہے۔ اس کیلئے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس کیس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ دھرنا اور لانگ مارچ ایک قیدی کا تیارکردہ ماڈل ہے جس کے پاس اس کے علاوہ سوچنے کو کُچھ نہیں، جس کی اپنی ساری کشتیاں جل چکی ہیں اور جو باقی بچی ہیں انہیں جلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس لیے اس کے پاس کھونے کو کُچھ باقی نہیں بچا؛ البتہ اس میں اتنی سکت اب بھی باقی ہے کہ وہ دوسرے کی کشتیوں کو آگ ضرور لگا سکتا ہے۔ یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہر شعبے اور ہر محکمے میں اس کے ہمدرد موجود ہیں جو وقت اور ماحول سازگار ہونے پر اس جلتی پر تیل گرانے کا کام کر سکتے ہیں۔ اگر نواز شریف جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں واپس اسلام آباد آسکتے ہیں تو پھر اب تو وہ اپنے شہر لاہور کی ایک چھوٹی سی بظاہر جیل میں ہیں۔ اس لیے ان کی سیاسی صلاحیتوں کو انڈر ایسٹیمیٹ کرنا بڑی غلط فہمی ہوگی؛ تاہم تینوں بڑے چین میں اکٹھے تھے اور انہوں نے بھی کچھ اہم فیصلے کئے ہیں۔ ان میں سے چند فیصلے دھرنے سے بہت پہلے سامنے آجائیں گے۔
Post a Comment