Dharne Ke Ahdaaf

Urdu Column
By: Sabir Shakir

مولانا فضل الرحمن لاؤ لشکر سمیت اسلام آباد میں پہنچ چکے ہیں۔ چند ماہ پہلے مولانا نے دھرنے اور آزادی مارچ کا جو اعلان کیا تھا وہ انہوں نے بظاہر تن تنہا پورا کردیا۔ اس دوران دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی نے مولانا کے دھرنے اور آزادی مارچ کو دسمبر تک مؤخر کرنے کے لیے اچھی خاصی تگ و دو کی، رہبر کمیٹی کے ذریعے بھی مولانا کو گھیرنے کی کوشش کی گئی، لیکن مولانا نے دونوں جماعتوں کی ایک نہ سنی اور اپنے طے شدہ منصوبے کے تحت اپنا سفر جاری رکھا اور اپنی آخری منزل پر پہنچ چکے ہیں۔ مولانا کے اس مصمم ارادے اور غیر متزلزل کیفیت سے سیاسی پنڈت اور صحافتی گْرو ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مولانا کے اس بے پناہ اعتماد کے پیچھے کون ہے؟ یہ سوال ابھی راز ہی ہے۔ عین اس لمحے جب مولانا کی گاڑی اسلام آباد کی حدود میں داخل ہورہی تھی، لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اپوزیشن کا جلسہ ایک دن کے لئے مؤخر کرنے کا اعلان کردیا، حالانکہ یہ جلسہ پہلے ہی جمعہ کے روز ہونا تھا، لیکن تاثر یہ پھیلا کہ متحدہ اپوزیشن نے جلسے کا وقت تبدیل کرلیا ہے۔ ایسی خبریں بالعموم حکومت کی طرف سے پھیلائی جاتی ہیں، تاکہ اپوزیشن کی صفوں میں انتشار اور کنفیوژن پھیلے۔ مریم اورنگزیب کی بریکنگ نیوز کے بعد مولانا کا ردعمل فطری تھا۔ مولانا جلسہ گاہ سے فوری طور پر نمودار ہوئے، مریم اورنگزیب کے یکطرفہ اعلان کی نفی کی اور واضح کیا کہ تمام قافلے وقتِ مقررہ پر اسلام آباد پہنچیں اور یہ کہ مریم اورنگزیب کا ہمارے جلسے سے کوئی تعلق نہیں۔ پی پی پی کے رہنما نیّر بخاری نے بھی مریم اورنگزیب کے اعلان کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے اس سے لاتعلقی کا اعلان کردیااور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما زاہد خان نے بھی مریم اورنگزیب کے بیان کی نفی کردی۔ لیکن اطلاع یہ ہے کہ شہباز شریف اور مولانا کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا، جس میں شہباز شریف نے مولانا کو ذاتی طور پر جلسہ ایک دن کیلئے مؤخر کرنے کی درخواست کی تھی، شاید اس کا تعلق مریم نواز سے متعلق ایک فیصلے سے تھا، جس کی شریف فیملی شدت سے منتظر ہے، کیونکہ مولانا کے دھرنے سے شریف فیملی اتنے ثمرات سمیٹ چکی ہے کہ اب ان سے محروم نہیں ہونا چاہتی اور نہ ہی وہ کوئی ایسا قدم اٹھانا چاہتی ہے کہ اسے واپس جیل جانا پڑے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے آٹھ ہفتے کی مشروط ضمانت منظور کر کے اپنا ذہن بھی واضح کردیا ہے کہ اگر کوئی ڈیل وغیرہ ہے تو عدالت اپنے کندھے استعمال نہیں کرنے دے گی۔ سیکشن 401 کی سب سیکشن 2کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئندہ کا روڈ میپ بھی دے دیاکہ اگرکوئی سیٹلمنٹ کرنا ہے تو حکومت سے براہ راست کریں۔ پاکستان کوڈ آف کریمینل پروسیجر 189ء کا سیکشن 401 سزاؤں کی معطلی یا معافی کے اختیارسے متعلق کہتا ہے کہ جب صوبائی حکومت کے پاس سزا کی معطلی یا معافی کی درخواست آئے تو صوبائی حکومت اسے سزا سنانے والی عدالت کے پریزائیڈنگ جج کے سامنے پیش کرے گی اور رائے لے گی کہ درخواست کو منظور کیا جانا چاہئے یا مسترد کیاجانا چاہئے اور معزز جج صاحب اپنی رائے کی وجہ بھی تحریر کر یں گے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ اب وہ بطور چیف ایگزیکٹو نواز شریف کے ساتھ معاملات طے کرنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ دوسری جانب وفاقی دارالحکومت کا ریڈ زون مکمل طور پر سیل کردیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے وزرا، ارکانِ اسمبلی اور وزیراعظم کے ترجمان مولانا کے بیانیے کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ یہ سوال بھی حیرت سے خالی نہیں کہ دھرنے اورآزادی مارچ کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزرا اور ارکانِ پارلیمنٹ متحرک ہیں اور تا دم تحریر حکمران اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ اورگرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے ارکانِ پارلیمنٹ اور وزرانہ تو مولانا اور اپوزیشن کے وزیراعظم عمران خان کے استعفے اور حکومت گرانے کے مطالبات پر کوئی جواب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اور نہ ہی مولانا کے دھرنے پر کسی قسم کی منفی رائے زنی کررہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام اتحادی دھرنا دیکھو اور دھرنے کی دھار دیکھو کے فلسفے پر کاربند ہیں اور اس گو مگو کی کیفیت میں اپوزیشن، جو کہ سٹینڈ بائی حکومت کہلاتی ہے، سے کسی صورت بگاڑنا نہیں چاہتے، کیونکہ اِن ہاؤس تبدیلی کی صورت میں یہ اتحادی جماعتیں آنے والی حکومت کی بھی اتحادی ہوں گی اور کابینہ میں بھی ان کی شمولیت لازمی ہوگی، کیونکہ اس وقت قومی اسمبلی میں نمبر گیم انہی چھوٹی جماعتوں کے پاس ہے۔ اگرپی پی پی، نواز لیگ اور مولانا تینوں اکٹھے ہو جائیں تو بھی انہیں سادہ اکثریت حاصل نہیں ہے۔ حکومت سازی کے لیے ترپ کے تمام پتے انہی تین چھوٹی جماعتوں بشمول بی این پی مینگل کے پاس ہیں اور اختر مینگل تو کابینہ میں بھی شامل نہیں ہیں۔  
اسلام آباد میں دھرنے کے نتائج کے بارے میں اتنی زیادہ کانسپائریسیز گردش کررہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے دو وفاقی وزرا اور ایک اہم رکن قومی اسمبلی بھی اپنے آپ کو وزیراعظم عمران خان کے متبادل کے طور پر محسوس کرنے لگے ہیں، جس کی شاید فوری طور پر عمل پذیری نظر نہیں آرہی۔ عین اس وقت جب مولانا اسلام آباد میں داخل ہورہے تھے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنی رہائش گاہ پر ایک ظہرانے پر سینئر صحافیوں کو مدعو کیا ہوا تھاجس میں حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ پرویز خٹک سمیت دیگر ارکان اسد عمر، شفقت محمود، نورالحق قادری اور فردوس عاشق اعوان نے جے یو آئی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات سے آگاہ کیااور بتایا کہ ہم نے بڑی نیک نیتی سے جے یو آئی کے ساتھ مذاکرات کیے اور ان کی پسند کی جگہ انہیں مہیا کی۔ پرویز خٹک نے بتایا کہ پہلے جے یو آئی نے ڈی چوک کا مطالبہ اور حکومت نے پریڈ چوک کی پیشکش کی تھی، بعد ازاں جے یو آئی نے موجودہ جگہ کا انتخاب کیا۔ کمیٹی کے ارکان نے بتایا کہ سب کْچھ وزیراعظم کی حتمی منظوری کے بعد ہوا۔ حکومت معاہدے کی پاسداری کرے گی اور اگر جے یو آئی نے معاہدہ توڑا تو پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔ انہیں صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے فری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔ جب کمیٹی سے فوج کی طلبی کے بارے پوچھا گیا تو کمیٹی کے ارکان اس سے لاعلم تھے، پھر دورانِ بریفنگ ہی فردوس عاشق اعوان نے وزیرِداخلہ سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ تاحال فوج کو طلب نہیں کیا گیا؛ البتہ فوج سٹینڈ بائی پر ہے اور ضرورت پڑنے پر طلب کرلیا جائے گا؛تاہم یہ طے ہے کہ فوج مظاہریں کے سامنے نہیں آئے گی اور پہلے مرحلے پر پولیس اور دوسرے مرحلے پر رینجرز صورتحال کو قابو کرے گی۔
اس بریفنگ میں بھی چوہدری پرویز الٰہی اور چیئرمین سینیٹ کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ بھلا چوہدری پرویزالٰہی، صادق سنجرانی، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سے بہتر پاور پلے اور پاور پلیئرز کے داؤ پیچ کو کون سمجھ سکتا ہے۔ پرویز خٹک نے بڑی حیرت سے بتایا کہ جے یو آئی نے مذاکرات کے دوران وزیراعظم کے استعفے سمیت کوئی سیاسی مطالبہ نہیں کیا، ان کا بس ایک ہے مطالبہ تھا کہ انہیں اسلام آباد آنے دیا جائے۔ مولانا آج جمعے کا خطبہ دیں گے اور اپنے بیانیے اور مطالبات کو مذہبی رنگ میں ہی پیش کریں گے۔ مولانا جو تقریر کرنا چاہتے ہیں وہ ملک بھر میں دینی اعتبار سے کافی بے چینی پیدا کرسکتی ہے، اس لیے اس تقریر کو شاید میڈیا پر لائیو نہ دکھایا جاسکے؛ البتہ سوشل میڈیا پر اسے روکا نہیں جاسکے گا۔ مولانا کو سمجھانے اور خطرناک تقریر نہ کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مولانا مانتے ہیں یا نہیں؟ اسفندیار یار ولی خان بھی اے این پی کے قافلے کے ساتھ اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ مولانا نے رات بھر آرام کیا، صلاح مشورہ کرچکے، اب انہوں نے اپنی عددی اکثریت کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔ ابتدائی طور پر ان کا پروگرام چار پانچ روز قیام کا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مولانا کو کیا ملے گا؟ وہ اپنا ہدف حاصل کر پائیں گے یا نہیں؟کیونکہ دھرنے سے مسلم لیگ نواز اور پی پی پی والے کافی کچھ پسِ چلمن حاصل کرچکے ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post